Featured Post

Who is Jesus?

The suggestion that Jesus is not, according to the Bible, “very God of very God” is likely to prove startling to those accustomed to th...

Monday, November 21, 2016

توحید اور بائبل :Monotheism in Bible

Image result for monotheism in bible

بائبل میں توحید پر زوردیا گیا:
یہ سب تجھی کو دکھایا گیا تا کہ تُو ناجے کہ خداوند ہی خدا ہے اور اُس کے سواہ کوئی نہیں۔ استثناء باب ۴ آیت ۳۵

پس آج کے دن جان اور اپنے دل میں غور کر کہ خداوند وہی خدا ہے جو اُوپر آسمان میں ہے اور نیچے زمین میں ہے اور کہ اُس کے سواہ کوئی نہیں۔ استثناء باب ۴ آیت ۳۹

سو تُو اے خداوند خدا بزرگ ہے اور اسلئے کہ کوئی تیری مانند نہیں اور تیرے سوا جہاں تک ہم نے اپنے کانوں سے سنا ہے کوئی خدا نہیں۔ سموایل باب ۷ آیت ۲۲

میں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں۔میرے سوا کوئی خدا نہیں۔ میں نے تیری کمر باندھی اگرچہ تُو نے مجھے نہ پہچانا۔ یسیعا باب ۴۵ آیت ۵

اسی طرح عہد نامہ جدید میں لکھا ہے ---- پڑھتے جائیں >>
یسوع نے جواب دیا کہ اول یہ ہے اے اسرائیل سن ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ اور تُو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔ مرقس باب ۱۲ آیت ۲۹ تا ۳۰

تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو وہ عزت جو خدائے واحد کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے۔ کیونکر ایمان لا سکتے ہو؟ یوحنا باب ۵ آیت ۴۴

چنانچہ میں نے سیر کرتے اور تمہارے معبودوں پر غور کرتے وقت ایک ایسی قربان گاہ بھی پائی جس پر لکھاتھا کہ نامعلوم خدا کے لئے۔پس جس کو تم بغیر معلوم کئےپوجتے ہو میں تم کو اُسی کی خبر دیتا ہوں جس خدا نےدنیا اور اس کی ساری چیزوں کو پیدا کیا وہ آسمان اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔ نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھ سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔ اور اُس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام روئے زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی اور اُن کی میعادوں اور سکونت کی حدیں مقرر کیں تا کہ خدا کو ڈھونڈیں شاید کہ ٹٹول کر اُسے پائیں اور ہر چند کہ وہ ہم میں سے کسی سے دور نہیں۔ اعمال باب ۱۷ آیت ۲۳ تا ۲۷

لفظ ابن اللہ کی وسعت

تب تُو فرعون کو یوں کہیو کہ خداوند نے یوں فرمایا ہے کہ اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا ہے۔خروج باب ۴ آیت ۱۱

حضرت داود کے بارے میں آیا ہے کہ

میں حکم کو آشکار کروں گا کہ خداوند نے میرے حق میں فرمایا ہے کہ تُو میرا بیٹا ہے میں آج کے دن تیرا باپ ہوا۔ زبور باب ۲ آیت ۷

میں اُسے اپنا پلوٹھا بھی ٹھہراوں گا اور زمین کے بادشاہوں سے بالا۔ زبور ۸۹ آیت ۲۷

دیکھ تجھ سے ایک بیٹا پیدا ہوگا وہ صاحب صلح ہو گا اور میں اسے اس کی چاروں طرف کے سارے دشمنوں سے صلح دوں گاکہ سلیمان اس کا نام ہو گا اور امن و آرام میں اُس کے دنوں میں اسرائیل کو بخشوں گا۔ وہی میرے نام کے لئے ایک گھر بنائے گا وہ میرابیٹا ہو گا اور میں اُس کا باپ ہوں گا۔۱ تواریخ باب ۲۲ آیت ۹ تا ۱۰

مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔ متی باب ۵ آیت ۹

وہ نہیں جانتے اور وہ سمجھیں گے نہیں وہ اندھیرے میں چلتے ہیں۔زمین کی ساری بنیادیں جنبش کرتی ہیں۔ میں نے تو کہا تم الہہ ہو تم سب حق تعالی کے فرزند ہو۔ زبور باب ۸۲ آیت ۵ تا ۶

اسلئے جتنے خدا کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں۔ رومیوں باب ۸ آیت ۱۴

یسوع نے اُس سے کہا مجھے نہ چھو کیونکہ میں اب تک باپ کے پاس اوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جا کر اُن سے کہہ کہ میں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اُوپر جاتا ہوں۔ یوحنا باب ۲۰ آیت ۱۷

تم میرے گواہ ہو۔ خداوند فرماتا ہے اور میرا بندہ بھی جسے میں نے برگزیدہ کیا تا کہ تم جانو اور مجھ پر ایمان لاو اور سمجھو کہ میں وہی ہوں مجھ سے آگے کوئی خدا نہ بنا اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا۔ یسعیاہ باب ۴۳ آیت ۱۰

مسیح نے کبھی خود کو خدا کا حقیقی بیٹا نہیں کہا

یہودیوں نے اُسے سنگسار کرنے کے لئے پھر پتھراُٹھائے۔ یسوع نے انہیں جواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں اُن میں سے کس کام کے سبب مجھے سنگسار کرتے ہو۔ یہودیوں نے اُسے جواب دیاکہ اچھے کام کے سبب نہیں بلکہ کفر کے سبب تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اس لیے کہ تو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے۔یسوع نے انہیں جواب دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا کہ میں نے کہا تم خدا ہو۔ جب کہ اُس نے اُنہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا اور کتابِ مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں۔ آیا تم اُس شخص سے جسے باپ نے مقدس کر کے دنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے اس لیے کہ میں نہ کہا میں خدا کا بیٹا ہوں۔ یوحنا باب ۱۰ آیت ۳۱ تا ۳۶

اگر حضرت مسیح کا دعوی واقعی خدائی کا ہوتا تو جب آپ پر یہ الزام لگایا گیا کہ تم انسان ہو کر اپنے آپ کو خدا کہتے ہو تو اسکا جواب یوں دیتے کہ میں خدا ہی ہوں اور تمہاری پیشگوئیوں میں خدا کا آنا لکھا ہے مگر بجائے اس کے آپ یہ جواب دیتے ہیں کہ تمہارے بزرگوں کو بھی خداکے کلام میں خدا کہا گیا ہے اگر ان کا خدا کہلانا کفر نہیں تو میرا خدا کا بیٹا کہلانا کیوں کفر ہو گیا۔ باالفاظ دیگر جن معنوں میں وہ خدا کہلائے انہی معنوں میں میں خدا کا بیٹا ہوں۔نہ وہ حقیقت میں خدا تھے نہ میں حقیقت میں خدا کا بیٹا ہوں مگر مجازی طور پر ان کو بھی خدا کہا گیا ہے اور مجازی طور پر میں بھی خدا کا بیٹا ہوں۔

مسیح کا انکار دراصل خداوند کا انکار تھا، اس سے دعوی خدائی لازم نہیں آتا

جو کوئی میرے نام پر چھوٹے بچے کو قبول کرتا ہے تو گویا کہ اس نے مجھے ہی قبول کیا ہے اور اگر کوئی مجھے قبول کرتا ہے تو گویا وہ میرے بھیجنے والے خدا کو قبول کرتا ہے۔لوقا ۹ آیت ۴۸

جو تمہیں نہیں مانتا گویا وہ مجھے نہیں مانتا اور جو مجھے نہیں مانتا گویا وہ خدا کو نہیں مانتا جس نے مجھے بھیجا ہے۔ لوقا۱۰ آیت ۱۶



جبکہ زبور میں الٰہ کے بارے میں یوں درج ہے

وہ نہیں جانتے اور وہ سمجھیں گے نہیں وہ اندھیرے میں چلتے ہیں۔زمین کی ساری بنیادیں جنبش کرتی ہیں۔ میں نے تم سے کہا تم الٰہ ہو۔ اور تم سب حق تعلٰی کے فرزند ہو۔ زبور باب ۸۲ آیت ۵ تا ۶

مسیح کے شاگرد بھی مسیح کو خدا کا حقیقی بیٹا تسلیم نہیں کرتے تھے

جب وہ تنہائی میں دعا مانگ رہا تھا اور شاگرد اس کے پاس تھے تو ایسا ہوا کہ اُس نے اُن سے پوچھا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا یوحنا بتسمہ دینے والا اور بعض ایلیا کہتے ہیں اور بعض یہ کہ قدیم نبیوں میں سے کوئی جی اُٹھا ہے۔ اس نے اُن سے کہا لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو؟ پطرس نے جواب میں کہا خدا کا مسیح۔ اُس نے اُن کو تاکید کر کے حکم دیا کہ یہ کسی سے نہ کہنا اور کہا کہ ضرور ہے کہ ابن آدم بہت دکھ اُٹھائے ۔ لوقا باب ۹ آیت ۱۸ تا ۲۲

توریت نے غیرمعبودوں کی پرستش سے منع کیا

تم زمین کی کسی چیز کو یا آسمان کی کسی چیز کو دیکھو تو اس کو خدا مت بناو۔ جیسا کہ خروج ۲۰ باب ۳ میں یہ الفاظ ہیں کہ تواپنے لئے کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے ہے خدا مت بنا۔

اور لکھا ہے کہ اگر تمہارے درمیان کوئی نبی یا خواب دکھانے والا ظاہر ہو اور تمہیں نشان یا کوئی معجزہ دکھلاوے اور اس نشان یا معجزہ کے مطابق جو اس نے تمہیں دکھایا ہے بات واقعہ ہواور تمہیں کہے کہ آو ہم غیر معبودوں کی جنہیں تم نے نہیں جانا پیروی کریں تو ہر گز اس نبی یا خواب دیکھنے والے کی بات پر کان مت دھریو۔

مسیح کا اپنا قول ہے وہ فرماتے ہیں سب حکموں میں اول یہ ہے کہ اے اسرائیل سن وہ خداوند جو ہمارا خدا ہے ایک ہی خدا ہے۔ پھر فرماتے ہیں حیات ابدی یہ ہے کہ وے تجھ کو اکیلا سچا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تم نے بھیجا ہے جانیں۔ یوحنا ۱۷/3

اور “ بھیجا “ کا لفظ توریت کے کئی مقام میں انہیں معنوں پر بولا گیا ہے کہ جب خدا تعالی کسی اپنے بندہ کو مامور کر کے اور اپنا نبی ٹھہرا کر بھیجتا ہے تو اس وقت کہا جاتا ہے کہ وہ بندہ بھیجا گیا ہے۔

اے اسرائیل سن ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری زبان اور اپنی پیاری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔ مرقس ۲۹:۱۲ و متی ۳۶:۲۲

اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔ یوحنا ۳:۱۷

مسیح کا حسب نامہ

جب یسوع خود تعلیم دینے لگا تو برس تیس ایک کا تھا اور (جیسا کہ سمجھا جاتاتھا) یوسف کا بیٹا تھا اور وہ عیلی کا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ انوش کا اور وہ شیت کا اور وہ آدم کا اور وہ خدا کا تھا۔ لوقا باب ۳ آیت ۲۳ تا ۳۸

یسوع مسیح ابن داود ابن ابراہیم کا نسب نامہ۔ متی باب ۱ آیت ۱

اور یعقوب سے یوسف پیدا ہوا یہ اُس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے۔ متی باب ۱ آیت ۱۶

مسیح کے زمانہ میں سب جانتے تھے کہ یسوع یوسف بڑھئی کے بیٹے ہیں۔ خود یسوع کے رشتہ دار اور کنبہ کے لوگ علی الاعلان کہتے پھرتے تھے جسکی تردید نہ کبھی یسوع نے کی نہ ان کی ماں نے

کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں؟ اسکی ماں کا نام مریمؑ اور اس کے بھائی یعقوب اور یوسف اور شمعون اور یہوداہ نہیں؟ اور کیا اس کی سب بہنیں ہمارے ہاں نہیں؟ متی باب ۱۳ آیت ۵۵ تا ۵۶

پس یہودی اس پر بڑبڑانے لگے۔ اس لئے کہ اس نے کہا تھا کہ جو روٹی آسمان سے اُتری ہے وہ میں ہوں۔ اور انہوں نے کہا کیا یہ یوسف کا بیٹا یسوع نہیں جس کے باپ اور ماں کو ہم جانتے ہیں۔اب کیونکر کہتا ہےکہ میں آسمان سے اترا ہوں۔ یوحنا باب ۶ آیت ۴۱ تا ۴۲

اور اس کی ماں نے اس سے کہا بیٹا، تو نے کیوں ہم سے ایسا کیا؟ دیکھ تیرا باپ اور میں کڑھتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے تھے۔ یوحنا باب ۲ آیت ۴۸

متی نے بھی جو نسب نامہ لکھا ہے اس کا عنوان قائم کیا ہے “ یسوع مسیح ابن داود ابن ابراہیم کا نسب نامہ” چنانچہ حضرت ابراہیم سے نسب نامہ شروع کر کے یوسف پر ختم کیا۔اور پھر لکھا ہے کہ یہ اس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا۔ یا للعجب! اگر یوسف کو یسوع مسیح کی ولادت میں دخل نہیں اور وہ صرف ان کی والدہ کا شوہر ہے اور اسے سے مسیح پیدا نہیں ہوئے تو ابراہیم سے نسب نامہ مریم تک لانا چاہیے تھا نہ کہ یوسف تک۔

مرقس اور یوحنا کی انجیل میں ولادتِ مسیح

لوقا اور متی کی انجیلوں میں مسیح کی ولادت کا ذکر ہے مگر لطف یہ کہ دونوں کے بیانات آپس میں ملتے نہیں اور ان میں صریح اختلاف ہے۔

مرقس اور یوحنا میں مسیح کی بن باپ ولادت کا کوئی ذکر نہیں۔ یوحنا کی عظمت مسلم ہے اور مسیح سے محبت میں ان کا شغف سب پر واضح ہے مگر وہ قطعاً کسی کنواری کے حاملہ ہونے کا ذکر نہیں کرتے بلکہ وہ صاف لفظوں میں لکھ گئے ہیں کہ

 فلپس نے تین اپل سے مل کر اسے کہا جس کا ذکر موسیٰ نے توریت اور نبیوں نے کیا ہے وہ ہم کو مل گیا۔ وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے۔ یوحنا باب ۱ آیت ۴۵

اور یوحنا کا ہی وہ حوالہ جو اوپر درج ہے

کیا یہ یوسف کا بیٹا یسوع نہیں جس کے باپ اور ماں کو ہم جانتے ہیں۔ یوحنا باب ۶ آیت ۴۲

متی کی انجیل اور کنواری حاملہ

یہ عبارت متی میں لکھی ہوئی ہے کہ “ یہ سب کچھ اسلئے ہوا کہ خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عمانوائیل رکھیں گے”۔جس نبی کی پیشگوئی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ یسعیاہ نبی ہے جس کے باب ۷ آیت ۱۴ میں یہ پیشگوئی مذکور ہے۔ مگر یسیعاہ نبی کی کتاب کی تفسیر میں علامہ ڈیوڈسن تحریر فرماتے ہیں کہ دراصل یسیعاہ نبی نے کنواری کا لفظ نہیں فرمایا تھا بلکہ “علمہ” کا لفظ ارشاد فرمایا جس کے معنی “بالغہ عورت”کے ہیں۔لیکن عہد عتیق کا ترجمہ یونانی زبان میں ہوا تو یونانی ترجمہ کرتے وقت “علمہ” کا ترجمہ “ پارتھی یوس” بمعنے “کنواری” کر دیاگیا۔تو ضروری ہواکہ اس پیشگوئی کو مسیح پر چسپاں کرنے کے لئے ان کی ولادت کو بغیر باپ کے قرار دیا جائےتا کہ یہ پیشگوئی بھی اپنے ظاہری الفاظ میں پوری ہو جائے اور مسیح کے خدائی اوتار ہونے کے لئے بھی ایک رستہ نکل آئے اور ظاہر ہے کہ یہ اس وقت ہوا جب “علمہ” کا ترجمہ پارتھی یوس یعنی باکرہ یونانی زبان میں ہو چکا تھا۔ گویا بائبل کو یونانی زبان میں ترجمہ کرتے وقت اصل پیشگوئی میں تحریف کر کے بالغہ کا باکرہ کر لیا گیا۔ اور مسیح کی ولادت کو ایک کنواری کے پیٹ سے جتلا کر ایک طرف تو اس پیشگوئی کا مصداق مسیح کو ٹھہرایا گیا تو دوسری طرف یونان کے آفتاب پرستوں کا گھر پورا کر دیا گیا جو اپنے ہاں خدا کے اوتار کو ہمیشہ سے کنواری کے پیٹ سے مانتے چلے آئے ہیں۔
https://esaiyat.wordpress.com/

Read: 
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits